"یاد رہے ہم 36 فیصد ہیں "
"Remember we are 36 percent"
تحریر : بلال حسین
میری یہ پوسٹ ایک خاص نقظہ نظر کی حامل ہے ۔ اِسے آپ قطعی طور پر مذہبی یا غیر مذہبی پیمابے میں تول نہیں سکتے ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق (جس کے کم سے کم دو لنکس میں شیئر کر رہا ہوں )پاکستان میں ٪36 فیصد لوگ anxiety اضطرابی اور depression (ذہنی دباؤ) کا شکار ہیں ۔ آج کی پوسٹ بھی اسی رپورٹ اور افراد کو دیکھتے ہوئے ، اُن کے مزاجوں کو سڑکوں ، بسوں ، ریستورانوں ، ہوٹلوں ، اسکول ، کالجوں ، محلوں ، سوشل میڈیا اور ٹیوی پر پروگرامز میں دیکھتے ہوئے اور نوٹس کرتے ہوئے کی جا رہی ہے ۔ اِس پوسٹ کا مقصد کسی کے عقائد کی دل آزاری یا نفی نہیں ہے ۔
مناسب صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت ہے تو فطری بات
ہے کہ اُنہیں کی سنی جانی ہے اور یہ کوئی راکٹ سائنس بھی نہیں ہے ۔ لہذا یہاں جو
ملحدین حضرات ہیں اُن کے بارے میں ( حتمی نہیں ) عمومی تاثر یہ اُبھرتا ہے کہ ذاتی
خواہشات ، کم علمی اور فیشن کے تحت چار چھ کتابیں شدید اختلافی نوٹ پر پڑھ لیں جس
میں کوئی حرج کی بات بھی نہیں ہے ، تاہم دوسرے بیانیئے ایسے سرے سے ہلاکت بتایا
جارہا ہے کہ اگر ایسا ہی معاملہ رہا تو انسان دوبارہ بندر بن جائے گا اور شہر کے
شہر جنگلوں کا نقشہ پیش کر رہے ہونگے ۔ دوسری جانب مسلمان کہنے والے اکثر مومن کہلواکر
بھی اُس فہم اور فراست کو چھو بھی نہیں پاتے ہیں جس کے وہ ازل سے دعویدار ہیں ۔
اصل مسئلے کی جانب کوئی نہیں بڑھ رہا ہے بس اپنے دائروں میں گھوم کر ایک دوسرے کو
ایسی مغلظات اور اشتعال انگیز شرارتوں کااہتمام کیا جاتا ہے کہ افراد کو غصہ آجاتا
ہے ۔ سوشل میڈیا کی پوسٹس میں اکثریت تحقیر کی آمیزش ، خود کو مہذب اور انتہا سے
زیادہ پڑھا لکھا سمجھنا ، اپنے ہی معاشرے کے لوگوں کا جنگلیوں کے مترادف گرداننا ،
اپنا مؤقف اس طرح سے پیش کرنا کہ جناب عقل کل انہیں کی میراث ہے اور دوسرے کی بات
تو گویا گدھے کی لات بھی نہیں ہو ۔۔ اگر آپ عالم فاضل ہیں تو اس بات کا اظہار آپ
کی پوسٹس کا لازمی جز ہونا چاہیئے ۔ علم و استدلال والے معاشرےکل اختلاف کے ساتھ قائم رہتے ہیں اور آگے بھی بڑھتے
ہیں لیکن جہاں اپنے آ پ کو ونسٹن چرچل سمجھنا شروع کردیا تو علمیت فقط کم علموں
اور ان پڑھوں پر رعب جھاڑنے کے کام سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی ۔ میری پوسٹ پر مجھے
اچھی طرح علم ہے کہ گالیاں بھی آنی ہیں اور مجھے القابات سے بھی نوازا جائے گا
لیکن میں نے جو چیز مہینوں سے محسوس کی ہے وہی قلم بند کر رہا ہوں ۔ میں کسی ملحد
و مسلمان کو ہدف نہیں بنا رہا ہوں بلکہ آپ
کی ذات کے اندر جو گند صدیوں سے بھرا ہوا ہے اُس کی نشاندہی کر رہاہوں ۔ اپنے
بیانیہ کو اعلیٰ کی تختی لگا کر اپنے گھر کے باہر لٹکانے سے آپ البرٹ آئنساٹائن نہیں
بن جائیں گے ۔ سوشل میڈیا گروپس میں میرے استاذہ کرام اور سینیئر ترین لوگ شامل ہیں جو
علمیت میں اور تجربے میں مجھ سے کہیں زیادہ ہیں لیکن اُن کی بھی تحقیر آمیز گفتگو
ایسی ہی ہوتی ہے جیسے وہ ذاتی پرخاریں اور بغض نکال رہے ہوں ۔ اگر آپ کو واقعی
کوئی کام کر گزرنا ہے تو آپ معیاری تعلیم کے لئے تگ و دو کیوں نہیں کرتے ہیں ۔
اپنی تئیں میں مہاراجہ بننے سے کہیں بہتر ہے کہ بچوں کو تعلیم دینا شروع کریں ۔ میری
تنقید کا مقصد آپ لوگوں کے اکھڑے ہوئے
مزاجوں اور طبعاََ صدیوں پرانے انداز تکلم کو بہتر بنانا ہے اور اس سے زیادہ مجھے
کسی کے نظریات سے کوئی فرق پڑتا ہے نہ ہی مجھے کسی سے ذاتی کینہ و بغض ہے ۔ اگر
پڑھے لکھے ہونے کے دعویدار ہیں اور اگر آپ کو یہ موقع میسر آچکا ہے کہ آپ نے چند کتابیں
یا جماعتیں اپنے ہم وطنوں سے زیادہ پڑھ لی ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس جو
تحقیق یا بیانیہ ہے ، وہی ہے سچ ہے تو کیا لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنا اور
ایسے لوگوں کے ساتھ کھیلنا جو جواب دینے کے ہنر سے واقف ہیں اور نہ ہی اُن میں
اتنی سکت ہے تو کیا یہ طرزِ عمل درست ہے ؟ یقینا نہیں ۔ میں کوئی فرشتہ یا معتبر
انسان نہیں ہوں لیکن اسی معاشرے کا ایک ایسا فرد ضرور ہوں جو لکھنے کے فن کو بخوبی
سمجھتا ہے اور الفاظوں سے تعصب و نفرت کی بوُ کو بآسانی محسوس کرلیتا ہے ۔ رمضان
المبارک مسلمانوں کا مقدس ماہ ہے اگر اکثریت عبادت میں مشغول ہے تو کیا آپ کی
اخلاقی ذمے دارے نہیں بنتی ہے کہ اُن کے نظریات کا احترام کریں ؟ اگر آپ کسی ایسے
سیکولر ملک میں موجود ہوں جہاں لورڈ بڈھا کے ماننے والے بھی ہوں تو کیا وہاں بھی آپ
لورڈ بڈھا پر اسی طرح کی اعتراضات اُٹھا ئیں گے جس سے واضح تعصب کی لکیر دیکھے
جاسکتی ہوگی یا پھر وہاں مہذب بن جائیں گےاور شائستگی کا دامن ہر گز ہاتھ سے جانے نہ دیں گے؟ اس کے برخلاف اگر کوئی شخص اسلام کو اپنے لیئے پسند نہیں کرتا ہے اور
وہ اِس کے بارے میں اپنی رائے بصد احترام دینا چاہتا ہے تو کیا آپ سبھی غیر
مسلمانوں کو قتل کردیں گے جبکہ وہ آپ کی نفی کا درپے ہر گز نہیں ہے ، وہ تو بس
اپنے نظریات و بیانیہ کو پیش کر رہا ہے ۔ اور ایک شخص جب غیر مسلم ہے تو آپ کیوں
اُسے کلمہ پڑھوانے پر بضد ہیں ؟ جبکہ وہ آپ کے نظریات و عقائد کی نفی کیئے بغیر
اپنے گروہ سے مخاطب ہوتا ہے ۔ پاکستان کو اگر آپ امن کے راستے سے درست سمت لے جانا
چاہتے ہیں تو عدم برداشت ، تعصب اور اپنے آپ کو برتر و اعلیٰ سمجھنا ترک کریں ۔ آپ یہ پوسٹ پڑھ کر ہنسیں گے بھی ، غصے میں مجھے
بہت کچھ بکیں گے بھی اور یہ بھی مانیں گے کہ آپ ذہنی طور پر بالکل صحتمند ہیں اور
آپ کا ذہنی دباؤ یا ذہنی مرض سے کیا واسطہ ۔ قبلہ آپ تو بالکل فٹ ہیں تو یہی ہمارا
قومی المیہ ہے کہ ہم پر کوئی بھی اُنگلی نہ اُٹھا ئے کیونکہ ہم جو سوچتے ہیں وہی
سچ ہے اور ہم جو چاہتے ہیں دنیا بھی وہی چاہے ۔ اِس ذہنی دباؤ کا شکار کوئی بھی
ہوسکتا ہے ۔ خواہ وہ کتنا ہی مالدار یا آسودہ کیوں نہ ہو ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں