پیر، 31 اکتوبر، 2022

ایدھی بن جائیں یا پھر ایدھی کے بچے تحریر بلال حسین

ایدھی بن جائیں یا پھر ایدھی کے بچے

بلال حسین 

بچوں کو محبت سے صبح اسکول کے لئے جگائیں

بچوں کو اس بات پر قائل کریں کہ آج وہ زندگی کا بہترین دن گزارنے جا رہے ہیں ۔ 

Courtesy NO GUILT MOM

صبح کا الارم بجا ہی تھا کہ بیوی کی جھنجلاہٹ زدہ اور نیم گھٹی ہوئی آواز نے مجھے چونکا دیا ۔ کہتے ہیں کہ بچوں کو جب صبح بیدار کیا جائے تو مسکرا کر کیا جائے تاکہ اُن میں ایک مثبت اور اچھی توانائی آ جائے ۔ وہ اپنا پورا دن اچھا گزار سکیں اور اسکول میں سیکھنے کی طلب کو مثبت انداز میں اپنا سکیں لیکن یہاں تو مائیں جب رات گئے تک سوشل میڈیا پر انتہائی جھوٹی خبریں اور وڈیوز نہ دیکھ لیں ، پاکستانی گھٹیا ڈراموں کے بے وزن مکالمے نہ سن لیں اور اُردو زبان کو خواتین رائٹرز کے بموں سے نہ اڑا دیں تو اُن کی آنکھوں سے نیند اتنی ہی دُور رہتی ہے جتنی آج پاکستان سے جمہوریت ہے ۔

بچوں کو دھمکی دیتے ہوئے اٹھاتے ہوئے بیگم صاحبہ نے گرج دار جملہ ادا کیا " تم اٹھ رہے ہو یا میں اٹھاؤں؟" 


غصہ کرنے سے آپ کے اندر مثبت توانائی ضائع ہوتی ہے

اگر اس کی جگہ وہ یہ کہہ دیا کریں کہ دیکھو آج موسم کتنا اچھا لگ رہا ہے باہر پرندے اور پودے کتنے خوش ہیں ، چلو اسکول کا ٹائم ہو رہا ہے ۔۔ آپ کو آج ناشتے میں آپ کی پسندیدہ چیز بنا کر دیتی ہوں اور لنچ بھی ۔۔۔ لیکن ذہنی دباؤ کے پیش نظر ایسا ممکن نہ ہو سکا ۔ بچے منہ بسورتے ہوئے بیدار ہوتے ہیں ، آپس میں لڑتے ہیں ، ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے  نا چاہتے ہوئے ناشتہ کرنے کے بعد کسی عادی مجرم یا ملزم کی طرح پولیس وین یعنی اسکول کی وین کا انتظار کرتے ہیں ۔ اور پھر قیدیوں کی مانند یعنی بچوں کو اسکول کی وین لے جاتی ہے اور وہاں بھی اسکول میں ججز یعنی میڈم اور پولیس اہلکار یعنی اساتذہ موجود رہتے ہیں ۔ 

  غصے چھوڑدیں ورنہ ۔ ۔ ۔ آپ کی صحت کو خطرہ ہے ، کلک کریں مزید پڑھیں

Courtesy www.betterhealth.vic.gov.au

 

ہم کہ ٹھہرے اجنبی ، یعنی ہمیں سمجھنے والا کوئی نہیں ہے 

اس کے بعد نمبر آتا ہے جناب کا ، فکر و تصور سے لبریز دماغ کی باقیات ابھی ختم نہیں ہوتیں کہ بیگم صاحبہ واش روم جانے تک مجھے گزشتہ شب میں سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر کی جانے والی برائیاں اور لگائی بجھائی کی روداد سیکنڈوں میں سنا دیتی ہیں ۔ اپنی ماں اور بہن کے ساتھ ہونے والی عالمی زیادتی اور اُس رشتے دار کا نام ایسے پکارتی ہیں جیسے وہ رشتے دار اسرائیلی ہو اور ان کی ماں بہن فلسطینی ۔ ہم سوچنے سمجھنے والوں کا جسم ویسے ہی پانی کی کمی اور غور و فکر کی ذہنی مشقتوں اور ورزشوں سے کھل کر اجابت سے محروم رہتا ہے اور بیت الخلاء میں دیر ہو جاتی ہے اور پھر صبح اٹھتے ہی خاندان نامہ سنا کر لا شعور میں بھی انہیں خیالات کو ٹھونس دیا جاتا ہے جس طرح اسٹیبلشمنٹ عوام کی رائے بناتی ہے ۔ 


اردو بلاگز ذہنی صحت دماغی امراض پاکستان نفسیاتی مسائل

نئی نسل تیزی سے ڈپریشن کا شکار کیوں ہورہی ہے؟

Courtesy DAWN NEWS

ناشتے کے وقت ہمیشہ یہی دھڑکا رہتا ہے کہ آفس کے لئے دیر ہو رہی ہے لیکن حرام ہے کہ بغض کی روانی میں کسی طور کوئی کمی واقع ہو اگر میں مضمون بدل بھی دوں تو سبزی والے کی مہنگی اور گلی سڑھی سبزیوں سے بات وزیر اعظم تک پہنچ جاتی ہے اور ایسی تیسی پر ختم ہوتی ہے ۔ جاتے ہوئے بیوی سے کون مسکرا کے ملنا نہیں چاہتا ہے ؟ لیکن مسکراہٹ تو کجا آواز میں بھی ایک رعب سنائی دیتا ہے کہ واپسی پر فلاں چیز لیتے ہوئے آنا  اور اس کے بعد بندہ سر تسلیم خم کرتے ہوئے کراچی کی سڑکوں پر جہاد کرنے نکل پڑتا ہے ۔

ڈپریشن ، پریشانی ذہنی دباؤ ، دماغی صحت ، معاشرہ اردو بلاگز

Depression, stress, anxiety rampant in Pakistan, specialists say

Courtesy TRIBUNE.PK News

کراچی والوں پر روز صبح کیا گزرتی ہے 

موٹر سائیکل سوار حضرات کی چالاکیوں سے اور گاڑی والوں کی رعونتوں سے بچتا بچاتا کراچی کا شہری ، چنگ چی رکشے کی لہراتی سواری سے ضرور پیچ و خم کرتے ہوئے بچتا ہے اور خدا کا شکر ادا کرتا ہے ۔ سڑک پر ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ آپ سڑک پر کسی صاحب کے منہ سے کسی اور صاحب کے گھر کی خواتین کے بارے میں نہ سنیں ۔ آفس پہنچنے کے بعد سب سے بڑا مرحلہ ہوتا ہے پارکنگ کا اور پارکنگ تو قسمت والوں کو ملتی ہے جو صبح ہی آکر بڑے ٹھاٹ سے گاڑیوں کو اس طرح لگاتے ہیں کہ ہمیشہ دوسری گاڑی پارک ہی نہیں ہو سکتی ۔ صبح آنے والے لوگ آپ کو آفس میں داخل ہوتے ہی ایسے گھورتے ہیں جیسے آپ ان کے گھر سے آ رہے ہوں ۔

اوپر باندھی گئی مختصر تمہید سے میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ گھر سے لے کر سڑک اور پھر دفاتر ، شاپنگ سینٹرز ، تفریحی مقامات ، شادی ہالز ، سنیما گھروں ، یا کہیں بھی ، ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہیں ۔ ہم اگر پچیس کروڑ کی آبادی والے پاکستان میں رہتے ہیں تو حالیہ مستند تحقیق کی رُو سے ہم میں پانچ کروڑ افراد مختلف ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں چھوٹی بڑی نوعیتیں شامل ہیں ۔ لہذا خوش رہنے کی سوچ مقدم بنا لیجئے ۔ جہاں رہیں ، جس حال میں رہیں خوش رہنے کی اور رکھنے کی کوشش کریں ۔ سنجیدگی اختیار کریں جتنی ضرورت ہو ، بچوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے اُن کو ہمدردی کے ساتھ سکھانے کی کوشش کریں ، آپ میں ایک انجانی اُداسی اور مایوسی کا خود ہی خاتمہ ہونے لگے گا ۔ بچے اُس طرح نہیں سوچتے ہیں جس انداز میں ہم سوچتے ہیں کیونکہ ہمارے دماغ میں زیادہ سوفٹ وئیر انسٹال ہوتے ہیں اسی لیے ہم سب کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جبکہ بچے صرف اپنے سوفٹ وئیر کی حد تک سوچتے ہیں اور اُسے وائرس سے بچانے کی تگ و دو بھی حقیقی معنی میں کرتے ہیں ۔

میرے دو مشورے ہیں ، ایدھی بن جائیں یا پھر ایدھی کے بچے کیونکہ اس کے علاوہ تو پاکستان اور خاص طور پر کراچی میں کوئی خوش رہنے نہیں دے گا ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں