ٹی وی پر پر ایک ٹی وی اینکر انتہائی جذباتی انداز میں دعا
میں کشمیر کو آزاد اور بھارت کو غارت کی دھمکی دے رہے تھے اور پھر اُنہوں نے نہایت
خلوص نیت سے فرمانبردار اولاد کے لئے دعائیہ کلمات ادا کئے اور یوں دعا کے بعد ،
دعا کے معاونین sponsorsکی طویل فہرست پیش کی گئی ۔ اب دعا کی اجتماعی ہیئت اپ ڈیٹ
ہو کر کورپوریٹ ہو گئی تھی ۔اولا د کا
تذکرہ ہوا تو اولاد اور بچوں کے بارے میں کچھ عرض کرتا چلوں ۔ بچے شاید ہی کسی سخت گیر انسان کو پسند نہ ہوں
اور اُس کے پیچھے بھی کوئی یقینا معقول وجہ ہی ہوگی ، لہذا بچوں کی شرارتیں دیکھ
کر ہمیں نہ صرف ہنسی آتی ہے بلکہ ہمیں اُن پر پیار بھی آجاتا ہے ۔ میرے قریبی دوست
کو میں نے ایک چپس کا پیکٹ دیا اور کہا کہ اپنے بچے کو دے دیجئے گا ، اُن صاحب نے ایسا
رد عمل دیا جیسے میں نے اُن کے والد کی جیب کاٹنے کا کہہ دیا ہو۔ وہ صاحب نے عرض
کیا " ارے بھائی اگر میرے بیٹے نے یہ چپس کا
پیکٹ دیکھ بھی لیا تو اِسے اُٹھا کر گھر کے باہر پھینک دے گا " میں نے پھر
تشویش کےساتھ سوال کیا کہ کیا آپ کے صاحبزادے چپس پسند نہیں کرتے ؟ تو اُنہوں نے نہایت
ہی متکبر انہ انداز میں عرض کی کہ میرے صاحبزادے صرف بڑے برانڈز کے چپس اور بسکٹس
کھاتے ہیں ۔ چند لمحوں بعد میں سوچتا رہا کہ چار سال کا بچہ یہ فیصلہ کیسے کرسکتا
ہے کہ کون سا برانڈ بڑا ہے یا معیار میں کم تر یا بر تر ہے ۔ چند لمحوں کی گہری
کشمکش کے بعد اُن صاحب نے کھسیانہ روی اختیار کی اور مجھ سے پانچ سو روپے اُدھار
کا تقاضہ کیا کیونکہ اُن کے پاس دفتر تک آنے جانے کے پیسے نہ تھے ، سو میں نے جیب
سے نکال کر پانچ سوروپے دیتے ہوئے ، نہایت ہی عجز و انکساری سے کلام کیا کہ
"بھائی آپ دیکھ لیں ، اگر اِن پانچ سو روپوں میں آپ کے بیٹے کے لئے چپس
بھی آجائیں تو مجھے خوشی ہوگی ۔" اِس کے بعد اُنہوں نے فرمایا کہ کافی رات
ہوگئی ہے ، میرا بیٹا سو گیا ہوگا ۔ صاحب چلے گئے اور میں اِسی شش و پنج میں مبتلا
رہا کہ مستقبل میں اگر ہمارے بچوں کے ہاتھ ہماری گردنوں تک بڑھتے ہیں تو اُس میں ہم
ہی قصوروار ہیں ۔ ہم اپنے بچوں کو معصوم نہیں بلکہ دیوتا بنا رہے ہیں ۔ بچوں کے
منہ سے نکلی ہوئی ہر ایک خواہش ایسے پوری کی جارہی ہے جیسے حکم ِ خدا ہو ۔ بچے کی
ضد کو پورا ہونے کے بعد بچے کو نہایت ضدی ، بد تمیز ، اکھڑ اور بد اخلاق پیش کر نا
ہماری قومی اور خاندانی ذمے داری بن چکی ہے ۔ دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ بچے پر کسی
بھی قسم کی سختی اور پابندی اُن کے تخلیقی اور ارتقائی عمل کو روک دے گی لہذا ہم
نے بچے کو کھلی چھوٹ دے دی ہے کہ وہ جانور بنتا ہے یا انسان ۔ اور آخر میں وہی
پرانا اور روایتی شکوہ اور گلہ اولاد فرمانبردار نہیں ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں