پیر، 22 اپریل، 2019

If you look in the mirror, feel bad



If you look in the mirror, feel bad

دکھاؤں آئینہ تو برا لگتا ہے  "
تحریر :  بلال حسین
جب میں نے اُنہیں دلیل دی تو وہ کہنے لگے کہ یہ سب تو کتابی باتیں ہیں اصل دنیا اُس سے بہت مختلف ہوتی ہے ۔ سو میں نے مسلمانیت کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور قرآن کا حوالہ دیا تو اُن کا جلال دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔ بقول بھائی صاحب (کزن ) کے تم ہمیں نبی سے کہاں ملا رہے ہو۔ اب مجھے یقین ہوگیا کہ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں کیونکہ اگر ہم نے شعوری طور پر اسلام کو سمجھا ہوتا تو ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے نظریاتی اور حقیقی معنوں میں پیروکار اور عاشق ہوتےاور قرآن اور محمد ِ عربی کے بعد حق اور سچ تسلیم کرلیتے لیکن  بھائی صاحب مزید فرمانے لگے کہ تم اِس قسم کی بحث میں اسلام یا قرآن کا حوالہ کیوں لاتے ہو ؟ میں نے کہا کہ میں آپ کی دل آزاری نہیں چاہتا تھا لیکن آپ کے منہ سے ہزار بار اپنے اور دوسروں کے لئے ایک جملہ سن چکا تھا کہ اللہ کی رضا میں ہی راضی رہو تو میں نے اُس کے جواب میں یہ بات رکھ دی کہ اللہ تو بہت سی باتوں پر صبر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ بھائی صاحب پھر مجھے ناراضی کے ساتھ دیکھنے لگے اور یہ کہہ کر چائے کی بھری ہوئی پیالی چھوڑ کر چلے گئے کہ تم چار کتابیں پڑھ کر ہمیں جاہل سمجھ رہے ہو۔ میں بہت زیادہ حیران ہوگیا کہ میں تو اُسی خدا کی بات کر رہا تھا جس کا ذکر بھائی صاحب ہمیشہ کرتے ہیں اور جب بھی کسی کی مدد کا تذکرہ مضمون بن کر اُبھرنے لگتا تھا تو بھائی صآحب فورا ہی یہ کہہ کر مضموں بدل دیا کرتے تھے کہ اب اِس میں خدا کی مرضی شامل ہے یا پھر اللہ تعالیٰ صابرین کے ساتھ ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ نیکی کے دو جملے بھی اب خالص نہیں رہے۔ طے شدہ نیکی (Engineered Goodness) کا اجر ملے نہ ملے ، نادار و مجبور رشتے داروں اور عزیزواقارب سے جان ضرور چھوٹ جاتی ہے۔ میں یہ نہیں چاہتا ہے کہ ہر کوئی غریب اور نادار لوگوں کا مسیحا بن جائے لیکن میں اتنا ضرور چاہتا ہوں کہ مذہب کے نام پر اگر خود صابر و زاہد نہیں بن سکتے تو کسی دوسرے کو بھی صبر کی تلقین نہ کی جائے۔ عجیب طرح کا ملک  ہے، ریاست و سیاست سے لے کر ایک کمرے کے مکان والے بھی مذہب کے نام پر استحصال سے باز نہیں آتے ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں