کراچی میں جاری نامعلوم افراد کی گوریلا جنگ
کراچی سے ایک ٹریلین ٹیکس جمع کیا گیا
زندگی ایسی بدل جائے گی ہمیں
معلوم ہی نہیں تھا ۔ ہم چند دنوں کے لئے ایسی دنیا میں قیام پذیر ہونگے جہاں سڑکوں
کی چمک سے کھانا کھانے والی پلیٹوں تک میں نفاست پائی جاتی ہو ۔ جہاں انسانوں کو انسانوں
سے بظاہر کوئی خطرہ نہ ہو ۔ جہاں ریاست کی رٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہو ۔ بڑے سے بڑی
گاڑی کے لئے اس کی خاص جگہ متعین ہو ۔ صفائی نصف ایمان جن کی گلیوں کا خاصہ ہو اور
ہمیشہ جس پر توجہ ہو ۔ جی ہاں میں یقیناً پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد کا ذکر کر
رہا ہوں اور کیوں نہ کروں ؟گزشتہ ڈیڑھ دہائی گزر چکی ہے میرے شہر میں یوں تو افراد
پر مبنی ایک معاشرہ ہے لیکن قانون جنگل کا بھی نہیں ہے ۔ جی ہاں میں کراچی کا شہری
ہوں ۔ اگر مجھے اسلام آباد اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود اس قدر فریفتہ کر رہا ہے
تو آپ کو اندازہ ہوجانا چاہیئے کہ کراچی والوں کے اوپر کیا گزرتی ہوگی ؟
کیونکہ میں کراچی کا رہنے
والا ہوں ۔ میں اسی کراچی شہر میں پیدا ہوا ہوں ۔ جب گٹر اپنی اوقات میں تھے لیکن اب
یہی اندرون زمین بہنے والا کالا پانی ہم کراچی والوں کے لئے سزا ئے کالا پانی بن چکا
ہے ۔ سڑکوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے افغانستان میں نہیں
بلکہ کراچی میں بمباری کرکے یہاں کی سڑکیں تباہ کردی ہیں۔ کراچی شہر سے ایف بی آر نے تاریخی ٹیکس جمع کرکے
تاریخ تو رقم کردی ہے لیکن بچارا کراچی اور کراچی والے یونہی سوتیلے پن کا شکار رہے
۔ اس شہر کا کوئی ولی وارث نہیں ہے ۔ کراچی کی سڑکوں پر ہر شخص حالت جنگ میں ہے ۔ ایک
گوریلا جنگ لڑی جا رہی ہے ۔ ڈکیت ہر روز شہریوں کی جان و مال کے درپے ہیں ۔ یہ گوریلا
جنگ کراچی پولیس اور ڈکیتوں کے درمیان ہے لیکن اس میں جانی و مالی نقصان شہریوں کا
ہورہا ہے ۔ پولیس کے اعلیٰ افسر اپنی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کرتے ہیں کہ سندھ پولیس
کے اعلیٰ افسران اور سندھ حکومت کے وزیر و مشیر جرائم پیشہ افراد کی مکمل پشت پناہی
کر رہے ہیں لیکن اس بڑی خبر پر اعلیٰ جج صاحبان بھی کان نہیں دھرتے کیونکہ یہ عوام
کی فلاح وبہبود اور انہیں ریلیف دینے کا معاملہ ہے ۔ عوام کو ڈکیتوں ، واٹر ٹینکر مافیا
، ٹرانسپورٹ مافیا ، پولیس گردی ، وڈیرہ مافیا ، پارکنگ مافیا ، دودھ مافیا ، فلٹر
پلانٹ مافیا کے رحم کرم پر چھوڑ کر سیاستدانوں
کو صرف آئین سے پیار ہے لیکن اس وقت تک جب تک ان کے لیڈر کی سیاسی میراث خیریت سے ہے
۔
سوال یہ ہے کہ سیاستدانوں کا کام عوام کی خدمت کرنا ہے ، عوام سے ووٹ لے کر یہ ایوانوں میں جاتے ہیں ، آئین بناتے
ہیں قانون سازی کرتے ہیں ۔ کیا یہ سب وہ کسی اور مخلوق کے لئے کرتے ہیں ؟ کیا ایوانوں
میں جانے کا مقصد امریکی عوام کو ریلیف اور سہولیات دینا ہے یا پاکستانی عوام کو ؟
جب یہ سارا ریاستی اور سیاسی ڈھانچہ عوام کے لئے ہے ، ملک کے لئے ہے تو پھر تئیس کروڑ
عوام کو اور خصوصاً کراچی کی تین کروڑ سے زیادہ عوام کو کیوں بے یارو مددگار چھوڑ دیا
گیا ہے ؟ پنجاب دیکھا ، لاہور دیکھا ، اسلام آباد گھومے ، ملتان کی سیر کی ، میاں
چنوں گئے ، لطف اندوز ہوئے ۔ اور جب اپنے وطن کراچی لوٹے ، سندھ کی سرزمین پر واپس
آئے تو ایک الگ ملک کا احساس ہوا ۔ ایسا ملک ، ایسا وطن جس کے لئے ہم سب قربان کرسکتے
ہیں لیکن کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ کیونکہ اس راہ جو بھی قربانیاں دی گئیں وہ رائیگاں گئیں
۔ اب کوئی مریخ سے ہی آئے گا جو کراچی کو انسانوں کی آبادی کا شہر سمجھے گا ۔
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو
کیا جمہوریت اتنا بھیانک انتقام ہے ؟
ہم جمہوریت سے بدظن ہوئے جو
کسی نے کہا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔ اگر یہی انتقام ہے تو ہمیں جمہوریت نہیں
چاہیے ۔ کراچی کی حلقہ بندیوں سے گھبرانے والے اسلام آباد کی طرف اپنا ساز و سامان
لیے کوچ کرنے والے ہیں ۔ کاش اسلام آباد پہنچ کر انہیں کچھ فکر یا احساس لاحق ہوجائے
کہ جس شہر کو ہم لاوارث اور سوتیلا بنا بیٹھے ہیں وہ ہمارے نسلوں کو پالنے کا ضامن
ہے ۔ کراچی والوں نے فوڈ پانڈا میں نوکریاں کرلی ہیں ، سرکاری ملازمتوں کے خواب دیکھنے
بھی چھوڑ دئیے ہیں بس اب فقط اتنی گزارش ہے کہ ہمیں ڈکیتوں کی گوریلا جنگ سے نجات دی
جائے ۔ مقامی لوگوں کو ہماری حفاظت پر مامور کیا جائے ۔ سڑکوں ، گٹر اور پانی کے نظام
کو بنیادی حق سمجھ کر دیا جائے ۔ کے الیکٹرک کی اجارہ داری کو اب کے لگام دی جائے
۔ ہمیں سرے محلات نہیں اپنا ہی چھوٹا سا آنگن چاہیے لیکن جہاں سکون ہو ، انسانیت ہو
۔
پنجاب اور سندھ کا موازنہ
اگر میں غیر سیاسی ہوکر بھی کروں تو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ دونوں صوبوں نے اسے سیاسی
بنا رکھا ہے ۔ پنجاب گئے تو میاں صاحب ہر دل میں ہیں اور سندھ میں بھٹو زندہ ہے ۔ مجھے
تو یہی فرق نظر آیا ورنہ پنجاب بھی میرا اور سندھ بھی میرا ہے ، میں پاکستانی ہوں
۔ اب اگر کوئی اسے سیاسی کہے تو کہے ہمیں تو یہی سکھایا گیا ہے اور یہی کہا جاتا رہا
ہے ۔ فضل الرحمان صاحب تین برس کا حساب مانگ رہے ہیں خان صاحب سے لیکن چودہ برسوں کا
ذکر تک نہیں کر رہے ہیں او انہوں نے فرما بھی دیا ہے کہ سندھ حکومت کے خلاف کوئی عدم
اعتماد کی تحریک نہیں لائی جائے گی ۔ اگر اصولی سیاست پر یقین رکھتے تو آپ ایسا بیان
نہ دیتے ۔ بہرحال مولانا کی اپنی جماعت کے لوگ گواہ ہیں کہ کراچی والوں اور سندھ کا
کیا حال ہے ۔
Good written, thanks to share
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ ، نوازش
حذف کریںسچ بات تو یہ ہے کہ کراچی شہر کا یہ درد صرف کراچی شہر کا سچا سپوت ہی محسوس کر سکتا ہے، کراچی شہر نے ہم سب کو حتی کہ ان حکمرانوں کو کیا کچھ نہیں دیا، پر بدلے میں کراچی کو صرف کچرہ،ٹوٹی سڑکیں، گندے نالے، ان میں بھرا کچرا، ٹریفک کی بے راہ روی، ان گنت بنیادی مسائل، صحت اور صاف پانی کا فقدان، ٹوٹی پرانی بسیں، مارکیٹوں کا حال برا، جرائم کی انتہا، تعلیمی ادار ے تباھ، کیا کچھ برائی نہیں ہے جو اس شہر کے مقدر میں نہیں لکھی گئی، وہ تمام تر معاشی برائیاں جن سے معاشرتی بگاڑ ہوتا ہو سب یہاں امپورٹ کر کے اس شہر کی بدصورتی میں سب نے اپنا کردار نبھایا ہے.. بلال صاحب نے بڑی دلیری سے ان تمام عناصر کو کچا چٹھا پیش کر دیا ہے اور یہ تحریر ان سب کے منہ پہ تماچہ ہے جس جس نے بھی اس شہر کی بربادی اور تباھ حالی میں کردار نبھایا ہے.. بلال حسین جیسے گمنام ھمدرد چند ہی ہیں جو بس اپنے قلم کے تلوار سے جہاد کر رہے ہیں پر یہاں سامراجوں کا ٹولا ہے جن سے اب ہم سب کو ملکر جنگ کرنی ہوگی..
جواب دیںحذف کریںبالکل سچ کہا آپ نے منظور صاحب ، میرے لئے اتنی قیمتی رائے کا بے حد شکریہ ۔ بلکہ میں کہوں گا کہ یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے ورنہ خاکسار کس قابل ہے
حذف کریں