صدارتی نظام کی مہر سے کرپشن کو سیل کردیا جائے گا ؟
بلاگر : بلال حسین
نوٹ ؛ آپ میری رائے سے اختلاف کرسکتے ہیں ۔
کیا قوی سلامتی کا مسودہ وزیراعظم کی قوم سے مخلصی
کا ثبوت ہے ؟
سوالات بہت ہیں لیکن مہنگائی کا جن تو بوتل سے
باہر پاکستان بنتے ہی آگیا تھا ۔ لہذا اس موضوع پر بحث کرنا فی الحال مناسب
نہیں ہے۔ ہم جمہوریت کے خطرات سے بات شروع کرتے ہیں جو ازل سے سیاسی
خاندانوں کی سیاسی شخصیات سے مشروط رہے ہیں ۔
پاکستان میں جمہوریت کی بساط کو شدید خطرہ
لاحق ہے ۔ پارلیمانی نظام کو اگر ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک کی سالمیت کو
شدید دھچکا پہنچے گا ۔ 1971 سقوطِ ڈھاکہ کی تمثیلات ایسے دی جا رہی ہیں جیسے ہمارے
ٹیلی ویژن پر کمیونیکیشن کمپنیاں فری منٹس کی تشہیر کرتے ہیں ۔ جنرل یحیٰی خان کے دور
میں بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا لیکن کیا آج کےچورن بیچنے والے سیاستدان اور اپنے
آقاؤں کی کرپشن اور لوٹ مار کو اپنی جانوں پر کھیل کر تحفظ دینے والے سیاسی
کارکنان کتنا کچھ جانتے ہیں سانحہ بنگلہ دیش کے بارت میں ؟ جاوید لطیف ن لیگ کے
لیڈر سے سوال ہوتا ہے کہ شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں تو وہ دیگر
ساتھیوں پر الزامات لگا دیتے ہیں ۔ جس کی وعید سنائی جا رہی ہے ،مریم صفدر سے لے
کر مریم اورنگزیب جس لیڈر کے خواب دکھا رہے ہیں وہ لندن میں اپنے خاندان کی دھن کی
حفاظت پر مامور ہے ۔ جس کی واپسی کی کوئی امید نظر آرہی ہے اور نہ ہی اسے پاکستان
کی عوام کی کوئی فکر ۔ یحیٰی خان سے لے کر جنرل مشرف کے صدارتی ادوار کے تجربے
ہم کرچکے ہیں ۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر جمہوریت نے
ڈیلیور نہیں کیا تو صدارتی نظام نے پاکستان کو کیا ترقی یافتہ ملک بنا دیا ؟ کیا
انصاف سے لے کر صحت اور تعلیم کا معیار بڑھ گیا ؟ جواب نفی میں ہی آنے کی توقع ہے
۔ صدارتی نظام ہو یا پھر پارلیمانی نظام ، اگر انسان یا لیڈر کی نیت صاف نہیں ہوگی
تو آپ چاہے خلد سے فرشتے لے آئیں کچھ تبدیل نہیں ہونے کا ۔ آج کے صدارتی نظام کی
اہمیت اس لئے بہت زیادہ اور شفاف ہے کیونکہ افواج پاکستان عوام کی شدید خواہش کے
باوجود سیاست میں دخل دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے اور مارشل لاء کا تو بالکل
سوچ بھی نہیں رہی ہے ۔ جنرل راحیل شریف سے پہلے بھی جنرل کیانی کو کراچی کے بگڑتے
ہوئے حالات کے پیش نظر کئی مواقع میسر آئے جب پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا
لیکن پاک فوج نے یہ ممکن بنایا کہ اب وہ سیاست میں اس طرح سے شامل حال اور شاملِ اقتدار نہیں رہے گی ۔
میاں صاحب جیتے تو فوج نے ہرگز نہیں جتایا
اس کے بعد عمران خان صاحب وزیر اعظم بنے تو فوج پر انگلیاں اٹھیں کیونکہ پاکستان
کا حکمران طبقہ دو جماعتی سسٹم کا مرہون منت رہا ہے اور ریاست میں بھی ان کی
پرچھائیاں بہت گہری ہیں جن کی مثال سندھ کا نیب اور سندھ کے دیگر ادارے ہیں جو
سیاسی اثر و رسوخ کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ صدارتی نظام کی اہمیت اس لئے اور بھی
بڑھ گئی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں 73 کے آئین کے بعد ، 74 برس بعد ، وزیر اعظم اور
ان کی ٹیم نے افواج پاکستان کے ساتھ مل کر قومی سلامتی پالیسی پر دستخط کرکے اپنی
دیانت اور اس ملک کی عوام سے گہری سنجیدگی کا اظہار کردیا ہے ۔ وزیر اعظم نے قومی
سلامتی کے مسودے کا ایک حصہ عوام کے لئے شائع بھی کردیا ہے ۔ جس طرح جنرل مشرف نے
اپنے دور حکومت میں حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ شایع کرنے کا جرأت مندانہ فیصلہ
کیا تھا اور اس فیصلے میں جنرل معین الدین حیدر صاحب بھی پیش پیش تھے ۔قومی سلامتی
پالیسی کا مطلب اور مقصد پاکستان کو سینکڑوں پیچیدہ اور بوسیدہ نظام سے چھٹکارا
دلا کر ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے ۔ انتہا پسندی کے معاملات ہوں یا خارجہ
پالیسی، سبھی معاملات میں واضح روڈ میپ موجود ہے ۔یہ بھی کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ ایک بہترین دستاویز ہے جسے پڑھ کر محسوس ہونے لگتا ہے کہ پاکستان کو ہم ایک اچھی جگہ لے جاسکتے ہیں اور ملک کی عوام کی زندگیاں بدل سکتے ہیں ۔
 |
Courtesy Dawn News
Prime Minister Imran Khan Signing National Security Policy of Pakistan 2022 - 2026 |
آئین پاکستان کے بعد ملک کا یہ قیمتی ترین دستاویز ہے
اور یہ آئین پاکستان کے عین مطابق بھی ہے ۔ اسی لئے وزیر اعظم عمران خان نے کسی
بھی سیاسی جماعت جیسے ن لیگ اور پی پی پی سے مشاورت کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا
کیونکہ یہ اپنی کرپشن اور ڈیل کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ۔
پاکستان کو در حقیقت ایک صدارتی نظام کی ضرورت اشد ہے لیکن اس کے ساتھ ایک ایسے
انسان کی نیت اور ارادے کی ضرورت بھی ہے جو عوام کی خاطر سیاست اور ریاست کے
مافیاز سے ڈٹ کر مقابلہ کرے اور انہیں شکست دینے کی طاقت رکھتا ہو ۔
برسوں بعد ایک آدمی مسلسل تئیس سال کی جدو جہد کے بعد
ایوان بالا میں وزارتِ عظمیٰ پر پہنچتا ہے ، یاد رہے یہ وہ شخص ہے جس نے دنیا بھر
میں عزت اور دولت کمائی اور ساری دولت پاکستان لے کر وطن واپس آگیا ۔ برطانیہ جیسے
ترقی یافتہ ملک کی نیشنلٹی کو چھوڑ کر پاکستان واپس آیا کیونکہ اسے سیاست نہیں
بلکہ خدمت کرنی تھی ۔ یہ شخص جنرل جیلانی کی گود میں بیٹھ کر نہیں آیا ، کسی تھرڈ
ایمپائر کو کبھی ساتھ ملا کر گراؤنڈ میں نہیں اترا اور نہ ہی "پاکستان کھپے "کا نعرہ لگا کر سیاسی کارکنان کااستحصال نہیں کیا ۔
یہ بلاگ آپ کو بظاہر جانبدار لگے گی لیکن
یقین جانئیے کہ زمینی حقائق مجھ سے یہی کچھ لکھوانے پر مجھے مصر ہیں تو میں کیوں
نہ لکھوں ؟ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لیڈران کے گھریلو اور ذاتی ملازمین کے
اکاؤنٹس سے اربوں روپے نکل رہے ہیں ، شہباز شریف صاحب نے نیب کو کوئی معقول جواب
دیا نہ ہی زرداری لیگ اس میں آج تک کامیابی حاصل کرسکی لیکن یاد رہے کہ اب
پراسیکیوشن میں موجود قوانین کی ترمیم کی جارہی ہے جس کے خلاف یہ بظاہر متحدہ
اپوزیشن بشمول فضل الرحمان ایک ہوجائے گی کیونکہ ان کی کرپشن اور نااہلی پر جب بھی
بات آئی یا کیس فائل ہوا تو جمہوریت کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اس لئے صدارتی نظام
کے بارے میں غور و خوض کیا جا رہا ہے اور جبھی سیاسی کرپٹ پنڈتوں کے سیر شدہ شکم
میں مروڑیں اٹھ رہی ہیں ۔ اب ڈیل کی پھکی ملے گی اور نہ ہی دردِشکم کا کوئی سیرپ
۔
ڈیل اور ڈھیل بہت دی گئیں اب ان سب کو سیل دی جائے وہ بھی صدارتی مہر
کے ساتھ ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں