نیا سال اور پرانی خوشیاں
نیا سال اور پرانی خوشیاں
یہ ملک کے ظلم ختم نہیں ہونے کے
آؤ ہم چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اور بانٹ لیتے ہیں
آؤ پہلے سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھتے ہیں
پیزا نہیں تو چائے پراٹھا کھا لیتے ہیں
آج تُومیرے گھر کی پریشانیاں سن کر مجھے تسلی دے
کل میں تجھے کال کرکے تری مشکل کا حل پیش کروں گا
آجاؤ ! سنو !
ہم ظلم کے خلاف تو شاید نہیں کھڑے ہوسکیں مگر
بچی کچی محبتوں کو سمیٹ کر بیٹھ جاتے ہیں
سردیوں کی شاموں میں اداسیوں کا اب کیا رونا
کہ درد حد سے بڑھ کر اجازت دے رہا ہے
ہم سب کو مسکرانے کے لئے
آؤ مسکرانا پھر سے سیکھ لیتے ہیں ، گنگنانا پھر سے سیکھ لیتے ہیں ،
آؤ جینا پھر سے شروع کرتے ہیں ،
نئے سال اور پرانی خوشیوں کے ساتھ
- بلال حسین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں