منگل، 4 جنوری، 2022

Nasla Tower Fallen Corruption End

نسلہ ٹاور زمین بوس اور کرپشن ختم

کیا نسلہ ٹاور کے ذمےداران کو سزا ہوگی ؟ یا پھر عوام کو بے گھر کرنے کا سلسلہ چلتا رہے گا ؟ 

Nasla Tower Karachi KDA SBCA Chief justice Gulzar supreme Court Pakistan


 طارق روڈ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے علاقے میں واقع مدینہ مسجد کے مسمار کرنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں ۔ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس پر عوام اپنی آراء اور تجاویز دے رہے ہیں ۔ ایک طرف مفتی اعظم پاکستان مولانا تقی عثمانی مدظلہم نے چیف جسٹس کو قائل کرلیا ہے اور عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی شروع کردی ہے دوسری طرف یہ چنگاری بھی خرمن کو جلانے کے لئے کافی ہے کہ چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار صاحب نے اپنا فیصلہ واپس نہیں لیا ہے اور مدینہ مسجد کو منہدم کرنے کا فیصلہ اصولی ہے ۔ 

کیا مسجد کو منہدم کرنے کے فیصلے سے اشتعال انگیزی بڑھنے کا خدشہ نہیں ہے ؟

عرض فقط اتنی ہے کہ پاکستان کا معاشرہ انتہا پسندی اور مذہبی رجحان کے حوالے سے ہمیشہ سرگرم رہا ہے ۔ مذہب کے نام پر جہاں محمد علی جناح کو آل انڈیا مسلم لیگ نے ووٹ دلواکر کامیاب کیا تھا اسی کے ساتھ پاکستان کی فکری بنیاد ڈال دی گئی تھی ۔  اس لئے پاکستان کے معاشرے میں مذہب کی اہمیت ضرورت سے زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ مسجد سے عوام کا ایک قلبی اور روحانی رشتہ آج کا نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط ہے ۔ ہم نے کبھی اس نظریہ کو اہمیت ہی نہیں دی کہ ہم مسلمان ہیں اور حق بات ہماری اخلاقیات اور ایمان کا حصہ ہیں  ۔ ظلم کی تاریکیوں کو ختم کرنے کا نام اسلام ہے ۔ ناانصافیوں کے خلاف لڑنے کا نام اسلام ہے ۔ لیکن ہم نے اسلام کو مسجدوں تک محدود کرلیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مسجد کے شہید کرنے کا حکم ہمیں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے اسلام کو بادل ناخواستہ نقصان پہنچایا جا رہا ہو اور یہ بات حکمران طبقہ ، اعلیٰ ادارے اور اسٹیبلشمنٹ ہم عوام سے زیادہ بخوبی سمجھتے ہیں ۔ ہم عدالتوں کے ریمارکس دیکھیں تو لگتا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت ہے لیکن عدالت کے احاطے سے ہی احساس ہونے لگتا ہے کہ ملک میں جمہوریت صرف کتابی اور خوابی کیفیت کا نام ہے ۔ 

عدلیہ چاہے تو نسلی ٹاور کو مثال بنا سکتی ہے کہ اگر کسی نے کرپشن کی اور زمین یا اراضی پر غیر قانونی قبضے کیے اور غیر قانونی  طور پر زمین الاٹ کی تو اس کا انجام نسلہ ٹاور کی کھنڈر نما عمارت سے مختلف نہیں ہوگا ۔ نسلہ ٹاور کی تعمیرات میں کوئی فرشتہ تھا نہ ہی جنات تھے ، پھر کیوں ابھی تک سائیں سرکار کی کراچی پولیس ذمےداران کا تعین تک نہیں کرسکی ، گرفتاری تو بہت دور کی بات ہے ۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ حکومت کرنے کے بعد بھی آج چیف جسٹس کے حکم پر عام آدمیوں کے مکانوں کو گرایا جاتا ہے لیکن حکومت اور ریاست کے خلاف بظاہر کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آتے ؟ 


سندھ حکومت اور ریاست کا ایک بھی بیوروکریٹ ملوث نہ ہو ، یہ ممکن نہیں ہے ۔

کیا نسلہ ٹاور کے حوالے سے عدالت نے سندھ کے وزیراعلی جناب مراد علی شاہ صاحب کو بلا کر پوچھا کہ آپ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں یا پھر کرپشن کے حصے دار ؟ 

کرپشن اس نہج پر پہنچ چکی ہے لیکن پھر بھی قانون صدیوں سے اندھا تھا اور نجانے کب تک بصارت سے محروم رہے گا ۔ دنیا کی تاریخ میں قانون صرف دو وجوہات کی بنا پر بنائے جاتے ہیں ، پہلی وجہ انسانوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ، انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے لئے اور دوسری وجہ انسانوں کو قابو میں رکھنے کے لئے اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لئے اور انسانوں کے حقوق کو نظر انداز کرکے ان پر ظلم کرنے کے لئے ۔ اب اہل وطن خود فیصلہ کرلیں کہ پاکستان میں قانون سازی کی نیت کیا رہی ہے اور اب تک کیا ہے ۔ آیا کہ جو قانون کی تشریح اور وضاحت کرنے والے ادارے ہیں انہیں بھی حکومت کا کوئی وزیر یا ریاست کا کوئی بیوروکریٹ کبھی قصوروار نظر نہیں آیا ۔ قانون اندھا ہوتا ہے کیوں ؟ یہ ایک معصومانہ سوال ہر شہری کے دماغ میں ہے ۔ قانون اندھا ہوتا ہے کیونکہ قانون بنانے والے اندھے ہیں ؟ یا وہ عوام کی خدمت نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔ اور اگر خدمت کی نیت نہیں ہے تو پھر مال بنانے کی تو ہوگی ہی جبھی تو لندن میں دنیا کی مہنگے ترین اپارٹمنٹ خرید لیے جاتے ہیں ، سرے محلات اپنے نام کرلیے جاتے ہیں لیکن کوئی بھی غریب ، محروم عوام کے لئے نہ صحت کی سہولیات کا سوچتا ہے اور نہ سول لاء کے بارے میں کسی ایوان میں آواز بلند ہوتی سنائی پڑتی ہے ۔ یہ ملک کو فلاحی بننا تھا پھر یہ کرپشن کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ۔ ہم غیر قانونی الاٹمنٹ اور قبضہ مافیا کے خلاف ہیں لیکن طارق روڈ پر واقع مسجد کو شہید کرنے سے پہلے عدالت عالیہ نسلہ ٹاور کے ذمےداران کو عبرت کا نشان بناتی اور سزا دیتی اور سزا ہوتی دکھائی دیتی ۔ پھر کہیں جا کر ہم اس فکر کی جانب بڑھتے کہ جب اسلام  کسی بھی غیر قانونی زمین پر مسجد بنانے کی سختی سے مخالفت کرتا ہے لیکن اگر ریاست کے قانونی کاغذات موجود ہوں تو اس پر صفائی کا اور جراح کا بھرپور موقع دیا جانا چاہیئے ۔ اس طرح کے سخت فیصلوں سے عوام کی بے چینی اور غصہ بڑھنے کے امکانات بڑھ جائیں گے ۔ کوئی بھی چوک پر دھرنا دینے کا یا جلوس نکالنے کا اخلاقی جواز ڈھونڈ لے گا پھر ریاست بھی مشکل میں آجائے گی اور عوام کو بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اگر نسلہ ٹاور کے ذمےداران کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے تو پھر شاید سندھ کے بلدیاتی نظام کو اپنی مرضی سے بحال کرنے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا جائے ۔ 

فیض احمد فیض نے اس ملک کے حالات کو دیکھ کر اپنی فکر بیان کی تھی جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے 

Faiz Ahmed Faiz Urdu Poet Poetry Mangobaaz Pakistan News Blogs Urdu
Faiz Ahmed Faiz Courtesy Mangobaaz 

مجھے ڈر ہے کہ یہ ملک ایسے ہی نہ چلتا رہے ۔ 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں